آلووں کو پکنے دو
آلووں کو چولہے کی
دھیمی دھیمی آنچوں کا
کچھ مزہ تو چکھنے دو
آلووں کو پکنے دو
تیز تپتے تیل سے
پانی کو پرے رکھنا
پاس نہ ذرا کرنا
ورنہ چلملاتی سی
گرم سی کئ چھینٹیں
تم پر اُڑ کر آئیں گی
خوب پھر جلائیں گی
اِس لیے میں ٹوکے ہوں
اِس جلن سے روکے ہوں
مجھ کو روک سکنے دو
آلووں کو پکنے دو
اب کچن میں پھیلے گی
آلووں کے پکنے کی
بھینی بھینی سی خوشبو
بھوک سینچنے والی
روح اینچنے والی
دل کو کھینچنے والی
وہ کمینی سی خوشبو
لوگ پھر یہ سوچیں گے
یہ کہاں سے آئی ہے
اور وہ تعاقب میں
تیرے پاس آئیں گے
تجھ کو یہ بتائیں گے
“جل گئے ہیں آلو”
جبکہ خود وہ جلتے ہیں
آلووں کی اِس ڈش کو
خود ہی حاصل کرنے کی
خواہشوں میں پلتے ہیں
اور ہاتھ مَلتے ہیں
ان تمام لوگوں کی
چکنی چپڑی باتوں پر
نہ دھیان تم دینا
ایک کان سے سننا
ان سنی پھر کر دینا
دل میں کینہ رکھتے ہیں
وہ تو صرف بَکتے ہیں
ان کو تم بھی بَکنے دو
آلووں کو پکنے دو